جب ایک سکھ مقدس اجتماع میں شامل ہوتا ہے اور کلام الٰہی میں مگن ہوجاتا ہے تو اسے محسوس ہونے والی روحانی لہروں کا جوش سمندر کی لہروں کی طرح ہوتا ہے۔
سمندر جیسا رب ہماری دسترس سے باہر ہے اور اس کی گہرائی ناقابلِ فہم ہے۔ جو شخص نام سمرن اور رب کی عبادات میں مشغول رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے جواہر جیسے خزانے کا ادراک کر سکتا ہے۔
رب کا سچا شاگرد اور متلاشی رب کے نام کی جواہر جیسی خصلتوں کا سوداگر رہتا ہے اور وہ دن یا رات کے وقت، گھڑی، وقت کی شباب اور دیگر عبادات اور رسومات سے کبھی متاثر نہیں ہوتا۔
جیسا کہ سواتی بارش کا قطرہ گہرے سمندر میں ایک جھنجھٹ پر گرنے پر ایک قیمتی موتی بن جاتا ہے، اسی طرح جب سکھ دسویں آغاز (دشم دوار) میں نام سمرن کے نتیجے میں الہی بے ساختہ موسیقی کا تجربہ کرتا ہے تو وہ خدا کی شکل سے بن جاتا ہے۔ ایک انسان