جس طرح تیل والے کا اندھا بندہ بیل نکالنے والے کے گرد گھومتا رہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس نے کئی میل کا سفر طے کر لیا ہے لیکن جب اس کی آنکھوں پر پٹی ہٹائی جاتی ہے تو وہ خود کو اسی جگہ کھڑا دیکھتا ہے۔
جس طرح ایک نابینا شخص بغیر کسی پرواہ کے رسی کو مروڑتا رہتا ہے اسی وقت بچھڑا اسے کھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے اب تک کیے گئے کام کو محسوس کرتا ہے تو یہ جان کر توبہ کرتا ہے کہ اس میں سے بہت کچھ کھا گیا ہے۔
جس طرح ہرن سراب کی طرف دوڑتا رہتا ہے لیکن پانی نہ ملنے سے اس کی پیاس نہیں بجھتی اور وہ بھٹکتے ہوئے تکلیف محسوس کرتا ہے۔
اسی طرح ملک اور اس سے باہر بھٹکتے ہوئے میں نے اپنی زندگی خواب میں گزاری ہے۔ میں وہاں تک نہیں پہنچ سکا جہاں مجھے جانا تھا۔ (میں اپنے آپ کو خدا کے ساتھ دوبارہ جوڑنے میں ناکام رہا ہوں)۔ (578)